(یہ صفحہ خواتین کے روز مرہ خاندانی اور ذاتی مسائل کے لیے وقف ہے، خواتین اپنے روز مرہ کے مشاہدات اور تجربات ضرور تحریر کریں۔ نیز صاف صاف اور مکمل لکھیں، بے ربط ہی کیوں نہ لکھیں۔ (ام اوراق)
ناراض والد کو کیسے مناﺅں؟
م۔ ک کا خط آیا ہے ۔ ایم اے ہیں لیکن ذہنی طور پر سخت پریشان ہیں ۔ والد اور والدہ میںعلیحدگی رہی ۔و الد ہی نے سارے بہن بھائیو ں کو پا لا ، تعلیم دلائی مگر ساتھ سختی کا مظاہر ہ بھی کر تے رہے ۔ زندگی کے ایک موڑ پر ایسا ہو اکہ والد ہ مل گئیں مگر والد ہمیں چھوڑ کر سعودیہ چلے گئے ۔ اب وہ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر ہم کو بد دعائیں دیتے رہتے ہیں ۔
٭ جنا ب م ک کا کہنا ہے کہ انہیں انتہا ئی محنت کے بعد بھی صحیح طور پر صلہ نہیں ملتا ۔ پے در پے نا کا میو ں کے بعد انہو ں نے تجز یہ کیا ہے کہ یہ سب کچھ وا لد کی نا راضگی کی وجہ سے ہے لیکن اب وہ والدہ کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ پو چھتے ہیں کہ نا را ض والد کو کیسے منا ﺅ ں اورمیرے حالات کب ٹھیک ہو ں گے ؟
جو لو گ بکھرے ہوئے خا ندا ن میں رہتے ہیں وہ اسی ذہنی کشمکش کا شکا ر ہو جا تے ہیں ۔ والدین اپنی انا میں یہ نہیں سوچتے کہ اولا د پر علیحدگی کے کیا اثرا ت مر تب ہو ں گے ۔ ان کامستقبل کیا ہو گا؟ صرف پرورش کرنے اور تعلیم دینے سے تو بچو ں کی اولین ضرورت پو ری نہیں ہو تی، محبت اور توجہ بھی بچو ں کی اولین ضرورت ہو تی ہے ۔ آپ جس اذیت سے گزر رہے ہیں ، اس کا مجھے خو ب اندا زہ ہے ۔کا ش والدین علیحدگی اختیا ر کرتے ہو ئے اپنے بچو ں کے متعلق بھی سو چ لیا کریں۔ اب وا لدہ کو چھو ڑتے ہیں تب مشکل ، والد کے بغیر بھی نہیں رہ سکتے ، آپ اپنے آپ کو تھوڑا سا بہا در بنائیے ۔ کوئی والد صاحب ک بارے میں پو چھتا ہے تو آپ اسے بتا ئیں کہ وہ اپنی مر ضی سے سعودیہ گئے ہیں ۔ آپ کیوں گھبرا تے ہیں ، زندگی کے بہت سارے مسائل ہمت اور پا مر دی سے حل ہو جا تے ہیں ۔
آپ کے خط سے میں نے اندا زہ لگا یا ہے کہ اب بھی آپ والد صاحب سے محبت کر تے ہیں اور انہیں خو ش دیکھنا چاہتے ہیں ۔ آپ انہیں پا بندی سے خط لکھئے ، ان کا حال پوچھئے ، ان کو لکھئے کہ آپ ان کے بغیر اداس ہیں ۔ وہ آپ کے والد ہیں ، انہو ں نے آپ کو بڑی شفقت کے ساتھ پا لا ہے ، تعلیم دلا ئی اور یہ ان کا احسان ہے ۔آپ یہ سوچئے کہ آپ کے والد بھی محرومی کا شکار رہے ہیں ۔ گھر اجڑ جا تے ہیں تو بہت فرق پڑتا ہے ۔ ان کی جھنجھلا ہٹ اس با ت کا ثبو ت ہے کہ وہ بھی چاہتے تھے کہ انہیں توجہ ملے ۔ بیو ی نہیں تو کم از کم اولاد ان کا خیا ل رکھے ۔ اب جبکہ آپ کی والدہ ایک عرصے کے بعد آپ کے پا س آئی ہیں تو انہیں مزید محرومی کا احساس ہوا۔ بچے بھی چھوٹ گئے گھر بھی گیا اور وطن سے بھی دور ہو گئے ۔ آپ لو گو ں کی توجہ اور پیا ر ان کو حوصلہ دے گا ۔ آپ ہمت نہ ہا رئیے اوروالد سے را بطہ رکھئے ۔ ان کو یہ احساس دلا نے کی بھر پو ر کو شش کیجئے کہ آپ ان کے بغیر رہ نہیں سکتے ۔ ادھورے پن کا احساس آپ کو بیما ر کر رہا ہے ۔ ایک دم تو نہیں کچھ دنو ں کے بعد آپ دیکھیں گے کہ ان کی محبت اور شفقت بڑھتی جا رہی ہے اور وہ اللہ کے گھر میں آپ کے لیے ہمہ وقت دعاﺅ ں میں مصروف ہیں۔ یہی آپ کی سب سے بڑی کا میا بی ہو گی ۔
نظر کی کمزوری
عتیقہ صاحبہ کرا چی سے نظر کی کمز وری ختم کرنے کامشورہ ما نگ رہی ہیں ۔ ان سے کہنا ہے کہ آپ نے عینک لگا کر یکدم چھوڑ دی ، اس کی وجہ سے بھی آپ کی نظر پر اثر پڑا ہے ۔ آپ دوبارہ نظر کا معائنہ کرائیے اور ڈاکٹر کی ہدا یت پرعمل کریں۔ اس کے علا وہ آپ ایسا کریں کہ ایک پا ﺅ سونف لے کر شیشے کے کھلے پیا لے میں ڈالئے ۔ اس میں گا جر کا ر س اتنا ڈالئے کہ سو نف سے اوپر رہے ۔ جب وہ خشک ہو جائے تو دو با رہ گا جر کا رس ڈالئے ۔ اس طر ح پا نچ چھ با ر کیجئے اور سونف کو چمچے سے روز ہلا تے رہیں ۔ جب آخری بار رس بالکل خشک ہو جائے تو چائے کا ایک چمچہ سفوف پانی کے ساتھ صبح شام کھا ئیے ۔ اس سے نظر تیز ہو تی ہے ۔ عینک بھی با قاعدگی سے لگائیے ۔ ہا ضمے کے لیے انجیر کے دو دانے کھا نے کے بعد کھا ئیے ۔
گوہانجنی (پھنسی) سے نجات
ہما رے گا ﺅ ں میں اکثر لو گو ں کو گوہا نجنی (پھنسی ) نکل آتی ہے جس سے آنکھ سو ج جا تی ہے ۔ اس کا کوئی دیسی علا ج نہیں ہے ۔ کہتے ہیں ا سکے لیے دم یا جھا ڑ کرایا جائے تو پھر نہیں نکلتی۔ بیری کے پتے آنکھ سے لگا دیے جا ئیں جب بھی دور ہو جا تی ہے ، مگر ہم لو گ یہ سب کام کر چکے ہیں پھر بھی گو ہانجنی نکل آتی ہے ۔ اب کیا کریں ؟ (شہزا دی ۔ اکو ڑہ )
٭ گوہانجنی نکلے تو اسے دبا کر پیپ نہیں نکالنی چاہیے ۔ گندے کپڑے اور گندے ہا تھو ں سے دانہ مزید پک جا تا ہے ۔ اس کے لیے سب سے بہتر علاج لونگ کا ہے ۔ جیسے ہی دانہ نکلتا محسو س ہو لو نگ لے کر اس کی ڈنڈی مٹی کے گھڑے پر گھس کر پانی کی مدد سے دانے پر صبح شام لگائیے ۔ گو ہانجنی تین دن میں ٹھیک ہو جائے گی ۔
محبت یا نفرت
کرا چی سے فر ضی نا م سعدیہ کے حوالے سے خط آیا ہے وہ اپنے پڑوس میں رہنے والے تعلیم یا فتہ اچھی ملا ز مت کرنے والے لڑکے سے شادی کرنا چا ہتی ہیں جس کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے ہے ۔ لڑکا شا دی کر نا چاہتا ہے ۔ جبکہ سعدیہ کی والدہ اس سے بہتر رشتے کی تلا ش میں ہیں ۔ سعدیہ پریشان ہے اور پو چھتی ہے کہ وہ کیا کرے ؟
٭ سعدیہ بیٹی !آپ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ انو کھی بات نہیں ۔ جب معا شرے میں اخلا قی حدود پھلا نگ لی جائیں تو سب کچھ ہو جا تاہے ۔ میں آپ کو اب یہی مشورہ دوں گا کہ اپنی والدہ سے کہیے کہ میں اسی لڑکے ہی سے شا دی کر و ں گی، لڑکا اور اس کے گھر والے را ضی ہیں ۔ آپ کی والدہ سمجھدار ہیں آپ کے با ر بار زور دینے سے وہ اپنا ارا دہ بدل دیں گی ۔ رہی نفرت کی بات تو یہ وقتی طور پر ہے ۔ آپ جب شا دی کر لیں گی تو یہی نفرت دوبا رہ محبت میں بدل جائے گی ۔ اپنی زندگی خرا ب نہ کیجئے ۔ ابھی لڑکا سنجیدہ ہے اوروہ آپ کا بوجھ اٹھا سکتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دلچسپی بھی ختم ہو سکتی ہے ۔ میں بار بار بچیو ں کو سمجھا تا ہوں کہ آپ شا دی سے پہلے تنہا ئی میں کسی سے نہ ملئے ۔ نجانے کیو ں وہ پر اعتما د ہو کر دھو کہ کھا تی ہیںاور پھر رورو کر خط لکھتی ہیں ۔ ہما رے معاشرے کی کچھ اقدار ہیں ،معلوم نہیں وہ ان اقدار کو کیو ں توڑتی ہیں؟ آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ لڑکا آپ کو چھوڑنا نہیں چاہتا بلکہ شا دی کرنا چاہ رہا ہے ۔ اس مو قعہ کو بالکل نہ گنوائیے اور شا دی کر لیجئے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں